کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لیے سویڈن کا انوکھا ردعمل


کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے جہاں ایک طرف یورپ کے ایک بڑے حصے میں آبادی لاک ڈاؤن میں زندگی بسر کررہی ہےوہیں یورپ میں ایسا ملک بھی ہے جہاں لوگوں کو تقریبا معمول کی زندگی بسر کرنے کی اجازت ہے طویل موسم سرما کے بعد ان دنوں سویڈن میں موسم اتنا گرم ہوگیا ہے کہ لوگ دارالحکومت سٹاکہوم میں باہر بیٹھ سکتے ہیں اور لوگ اس موسم کا پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں خاندان کے خاندان ماریا سکوئر پر وائکنگ گاڈ تھور کی بلند مجسمے کے نیچے بیٹھ کر آئسکریم کا مزہ لے رہے ہیں وہیں نوجوان لوگ سڑک کے کنارے بیٹھ کر ہیپی آؤر کا مزہ لے رہے ہیں   شہر کے دوسرے علاقوں میں اس ہفتے نائٹ کلبز کو کھول دیا گیا ہے۔ لیکن اس اتوار سے ایک وقت میں پچاس لوگوں سے زیادہ کی بھیڑ پر پابندی ہوگی یہاں کے مقابلے میں پڑوسی ملک ڈینمارک میں دس لوگوں کے ایک ساتھ جمع ہونے پر پابندی ہے وہیں برطانیہ میں لوگوں کو اپنے گھر کے باہر کسے سے نہ ملنے کی صلاح دی گئی ہے ہرشخص پر بڑی ذمہ داری ہے
سويڈن کی سڑکوں پر عام دنوں کے مقابلے خاموشی ہے سٹاکہوم میں پبلک ٹرانسپورٹ کمپنی ایس ایل کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے زیرزمین چلنے والی اور عام ٹرینوں میں مسافروں کی تعداد میں ٪50کمی درج کی گئی ہے  عوامی جائزوں میں پایا گیا ہے کہ سٹاکہوم کی نصف سے زیادہ آبادی گھر سے کام کررہی ہے سٹاکہوم کی سرکاری کمپنی سٹاکہوم بزنس ریجن جس کا کام شہر میں عالمی تجارتی برادری کو سپورٹ کرنا ہے کا اندازہے کہ شہر کی بڑی کمپنویوں کے کم از کم ٪90ملازم گھر سے کام کریں گے۔ اس کی وجہ ہے کہ سویڈین میں ایک لمبے وقت سے لوگوں کو آفس آئے بغیر گھر سے کام کرنے کی حوصلہ افضائی کی جاتی ہے۔
کمپنی کے سی ای او سٹیفان انگوارسن کا کہنا ہے جو بھی کمپنی آفس بلائے بغیر اپنے ملازموں سے گھر سے کام کراسکتی ہے وہ کرارہی ہیں اور یہ طریقہ کامیاب ہے حکومت بھی اس بات پر زور دے رہی ہے کہ لوگ خود ذمہ دار بنیں قومی طبی اہلکار اور سیاستدان یہ امید کررہے ہیں بغیر سخت قوانین کے نفاذ کے بغیر ہی وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پا لیا جائے یعنی لوگ اتنے ذمہ دار ہوجائیں کہ سختیوں کی ضرورت ہی نہ پڑے حکومت کی جانب سے سخت قوانین کے بجائے بہت زیادہ ہدایات جاری کی گئی ہیں جن میں بیمار یا عمر رسیدہ ہونے پر گھر پر رہنے کی ہدایت کے علاوہ ہاتھ دونوں ، غیر ضرور سفر سے گریز اور گھر سے کام کرنے شامل ہے سویڈ میں اب تک کورونا وائرسے کی 3500 کیسز سامنے آچکے ہیں اور 105 لوگ ہلاک ہوچکے ہیں وزیر اعظم سٹیفان لووین نے ٹی وی کے ذریعے قوم سے اپنے خطاب میں کہا ہے  جو بالغ اور سمجھدارہیں ان کو سمجھداری کا ثبوت دینا ہوگا گھبرانے اور افواہیں پھیلانے کی ضرورت نہیں ہے اس مصیبت کی گھڑی میں کوئی بھی اکیلا نہیں ہے لیکن ہر شخص پر بڑی ذمہ داری ہے قومی سطح پر جائزے کرانے والی نامور کمپنی نووس کے مطابق سویڈن کے بیشتر عوام نے ان کے اس خطاب کو دیکھا اور اس سے اتفاق بھی کیا اس کے علاوہ سویڈن کے عوام کو اپنی حکومت اور سرکاری اہلکاروں پر بے حد یقین ہے اور متعدد کا خیال ہے کہ یہی وجہ ہے کہ لوگ حکومت کی جانب سے جاری کی گئی ہدایات کو خود احترام کررہے ہیں بیحرہ روم کے خطے کے دیگر ممالک کی طرح سویڈین میں نص سے زیادہ گھروں میں ایک شخص رہتا ہے اور اس سے بھی خاندان کے دیگر افراد کے درمیان وائرس کے پھیلاؤ کا خطرہ کم ہوتا ہے سویڈن کے عوام کو گھر سے باہر وقت گزارنے کا بہت شوق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکام نے کہا ہے کہ عوام کی جسمانی اورذہنی صحت کے ذہن میں رکھتے ہوئے وہ اسے قوانین کا نفاذ نہیں کرنا چاہتے جس سے عوام گھر میں قید ہوجائے گی
سٹاکہوم چیمبر آف کامرس کے سی اے او انڈری ہیتزیجورجیو کا کہنا ہے کہ ہم وائرس سے صحت پر ہونے والے نقصانات کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہتے ہیں کہ اس وباء سے معیشت متاثر نہ ہو   یہاں کی تاجر برادری کو واقعی ایسا لگتا ہے کہ دوسرے ممالک کی نسبت سویڈین کا رویہ کافی عقل مندانہ اور حقیقت پسند ہے ایک طرف سویڈن وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کی جانے والی دوسرے یورپی ممالک کو ہرممکن کوشش کرتے دیکھ رہا ہے وہیں اب لوگوں نے سویڈن کے انوکھے رویے پر سوال اٹھانے شروع کردیے ہیں سویڈیش میڈیکل یونیورسٹی میں وباء امراض کی ماہر ڈاکر ایما فرانس کا کہنا ہے کہ میرے خیال سے لوگ ہدایت سننے کے عادی ہوتے ہیں لیکن اب حالات نازک ہیں اور صرف ہدایات کافی نہیں ہیں  ان کا کہنا ہے کہ حکومت عوام کو لوگوں سے گھر سے باہر ملنے  شاپنگ اور جم جانے سے متعلق واضح ہدایات جاری کرے ایک طرف بعض لوگوں کا روزگار جاری ہے وہیں بعض اس کو برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ خاص طور سے وہ لوگ جو خود اپنا بزنس چلاتے ہیں شہر کے مرکز میں مشہور پسٹر بار اونیسٹ الز کے مالک الموکیکا کا کہنا ہے کہ ان کے یہاں آنے والے صارفین کی تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے  میری اہلیہ کی بھی اپنی کمپنی ہے تو کافی حد تک اپنے ہی بزنس پر منحصر ہيں  کام کا حال برا ہےمجھے ابھی بھی اپنے بل ادا کرنے ہیں ہمیں اپنی بینک کو کال کرنا پڑے گا  ڈاکٹر ایما فرانس کا کہنا ہے تاریخ اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ یورپ کے کس سیاستدان اور سائنسدان نے ان مشکل حالات میں اب تک سب سے صحیح فیصلہ کیا ہے

Comments